طیبہ کی رہگذر میں بیٹھے ہوئے ہیں کب سے- کائنات محو درود ہے (2017)
طیبہ کی رہگذر میں بیٹھے ہوئے ہیں کب سے
آنسو چھپا چھپا کے رکھّے ہوئے ہیں کب سے
اک مَیں ہی آبدیدہ رہتا نہیں ہوں، آقاؐ
دیوار و در بھی گھر کے بھیگے ہوئے ہیں کب سے
آقائے محتشمؐ کے صد بار نامِ روشن
بچوں نے تختیوں پر لکّھے ہوئے ہیں کب سے
امت کے ہر افق پر برق و شرر ہیں رقصاں
طوفانِ باد و باراں امڈے ہوئے ہیں کب سے
آقا حضورؐ، آنسو تھمتے نہیں ہمارے
کرب و بلا کے منظر بکھرے ہوئے ہیں کب سے
مدحت نگار اپنی قسمت کی لیں بلائیں
بطحا کی وادیوں میں اترے ہوئے ہیں کب سے
اذنِ ثنا عطا ہو قرطاسِ نو کو یارب!
مضمونِ نعت ہم نے سوچے ہوئے ہیں کب سے
مقتل میں جبرِ شب کی روداد ہم لکھیں گے
چشمِ قلم میں آنسو ٹھہرے ہوئے ہیں کب سے
ساحل پہ روشنی کا نام و نشاں نہیں ہے
افکار کے سفینے ڈوبے ہوئے ہیں کب سے
کوئی اذان دینے نکلا نہیں گلی میں
ورنہ قضا کے خیمے اکھڑے ہوئے ہیں کب سے
ابرِ کرم کے چھینٹے، جود و سخا کی برکھا
پیاسے یہ میرے خطّے ترسے ہوئے ہیں کب سے
خود ساختہ مبصّر، خود ساختہ مورخ
فکری مغالطوں میں الجھے ہوئے ہیں کب سے
گجرے ریاضؔ اِمشب ہم پھر بنا کے لائے
لب پر گلابِ مدحت مہکے ہوئے ہیں کب سے