آپؐ کے قدموں کے صدقے میں دعائیں ہوں قبول- کائنات محو درود ہے (2017)

آپؐ کے قدموں کے صدقے میں دعائیں ہوں قبول
مجھ غلامِ بے نوا کی التجائیں ہوں قبول

حاضری کے پھول لے کر حاضرِ دربار ہوں
اک غریبِ شہر کی آقاؐ وفائیں ہوں قبول

میرے گھر کے سب در و دیوار کرتے ہیں سلام
چشمِ حیرت میں سمٹتی کہکشائیں ہوں قبول

کب سے ہیں آنکھیں درِ اقدس پہ محوِ التجا
آخرِ شب کانپتی میری صدائیں ہوں قبول

میرے اندر کا بھی انساں عجز کی تصویر ہے
آپؐ کے دربار میں اس کی انائیں ہوں قبول

چند آنسو ہیں رقم میرے عریضے میں حضورؐ
دیدۂ تر کی مؤدب سب گھٹائیں ہوں قبول

میرے پاکستان کی یا سیّدیؐ یا مرشدیؐ
آنسوؤں میں رات بھر بھیگی ہوائیں ہوں قبول

احتراماً لفظ ہونٹوں سے ادا ہوتے نہیں
درد میں لپٹی ہوئی آقاؐ نوائیں ہوں قبول

ایک اک ساعت ہے مصروفِ ثنا یا مصطفیؐ
محفلِ میلاد کی پرنم فضائیں ہوں قبول

یہ دعا ہے یا خدا! اہلِ سخن کو حشر تک
نعت میں میرے قلم کی اپسرائیں ہوں قبول

دل غلامی کے ہے تخت و تاج کا وارث، حضورؐ!
دھڑکنوں کی مختلف دلکش ادائیں ہوں قبول

آج پھر اصرار کرتی ہے یزیدیت، حضورؐ!
ہر قدم پر عصرِ نو کی کربلائیں ہوں قبول

بے خودی میں رقص کے عالم میں رہتا ہے ریاضؔ
یا نبیؐ، وارفتگی کی انتہائیں ہوں قبول