غریقِ حرفِ ندامت جبیں نہیں ہوتی- خلد سخن (2009)
قدم قدم پہ ہوس گھات میں کھڑی ہے حضورؐ
قدم قدم پہ جہالت ہے ہمرکاب مرے
منافقت کے مَیں جنگل اُٹھائے پھرتا ہوں
ہر ایک سَمْت اندھیروں کی راجدھانی ہے
اُداس شام کے سائے طویل شب کی طرح
ازل سے جیسے مسلط ہیں میرے آنگن پر
حضورؐ چشمِ تصور میں حیرتوں کے سحاب
برس رہے ہیں ابھی تک بدن کی مٹی پر
زمینِ دیدہ و دل پر یہ ناروا لمحے
اُتر رہے ہیں حوادث سے جھولیاں بھر کر
حماقتوں کا بہت بوجھ سر پہ ہے آقاؐ
کھڑا ہوں آج بھی تاریخ کی عدالت میں
حضورؐ اپنے گواہوں میں کس کو پیش کروں
کہ خود مَیں اپنے موقف پہ ہی نہیں قائم
سزا و جرم کی بے انت داستاں ہوں مَیں
حضورؐ! عرصہء محشر میں کب سے تنہا ہوں
دکھوں کی فصل مقدر ہے میرے بچوں کا
مَیں شہرِ علم کے در پر کھڑا ہوں صدیوں سے
عمل کی فرد نئے لفظ سے شناسا ہو
شعورِ عَصر سے دامن تہی نہ ہو میرا
حضورؐ، آپؐ کے لمحاتِ روز و شب پہ درود
حضورؐ، آپؐ پہ قربان میری سب نسلیں
حضورؐ، طوقِ غلامی کا ہوں تمنائی
فریب خوردہ بصیرت کے گہرے پانی میں
حضورؐ ساحلِ اُمید کیا نظر آئے
حضورؐ، اُمتِ بے وصف و بے ہنر کب سے
مری طرح درِ اقدس کو تکتی رہتی ہے
لکھا ہوا تھا ہتھیلی پہ روز و شب کا حساب
مری طرح یہ پشیمان بھی نہیں ہوتی
میں کب سے کشتِ تمنا میں بو رہا ہوں غزل
حضورؐ کرب کی فصلیں مرا مقدر ہیں
ہجومِ موسمِ زر کی گرفت میں ہوں ابھی
ہجومِ موسمِ زر سے مجھے رہائی دیں
ہجومِ تشنہ لباں منتظر ہے برسوں سے
ہوائے شہرِ مدینہ اِدھر بھی آ نکلے
ہے اتنا حَبْس کہ مشکل ہے سانس بھی لینا
مکینِ شہرِ حوادث حصارِ غم میں ہیں
حضورؐ ارضِ دعا شور و شر کی زد میں تھی
حضورؐ ارضِ دعا شور و شر کی زد میں ہے
ہوس کی آگ بھی رزقِ زمیں نہیں ہوتی
غریقِ حرفِ ندامت جبیں نہیں ہوتی