کشکول آرزو (2002)
ریاض ’’کشکولِ آرزو‘‘ (یکم ربیع الاوّل ۱۴۲۳ھ مطابق مئی 2002ئ) : ’’خوشبوئے اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام، کہ آخرِ شب جب تشنہ لبوں پر اپنے پَر پھیلاتی ہے تو لہو کی ایک ایک بوند رقص میں آجاتی ہے‘‘۔یہ کتاب پابند نعتیہ غزلوں، آزاد نظموں اور قطعات کے علاوہ پابند اور طویل نظموں کے شاہکار فن پاروں کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر عبدالعزیز کشکولِ آرزو کی شعریت کا حظ یوں اٹھاتے ہیں: ’’کاوشِ نعت میں یہ حسین تجربہ انھیں بلاشبہ اس ندرتِ فن کا اسیر بنا دیتا ہے اور یہ بھی کہ وہ یہ دانستہ نہیں کرتے بلکہ ان سے یہ ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے شاخ پہ پھول کھل اُٹھتے ہیں اور پھولوں سے خوشبو بکھرنے لگتی ہے۔‘‘
فہرست
نعت میں تغزّل اور شعریت کی ایک وہبی صورت
کلکِ مدحت دے کے اپنا ہمزباں کس نے کیا
اے ربِ ارتقائے شب و روز و ماہ و سال
93ء کی آخری ساعتوں میں ایک دعائیہ نظم
یہ کون آیا کہ تاریخِ بشر پھولوں سے مہکی ہے
اشکِ پیہم کی میں برسات لگا لوں تو چلوں
کڑی دھوپ میں ہر قدم پر کسی کے کرم کے مسلسل شجر دیکھتے ہیں
پڑاؤ جاں کے قریں ہے شبوں کے لشکر کا
ضمیرِ لالہ و گل سے عقیدت کی مہک اٹھے
حریمِ عشقِ پیغمبرؐ میں وہ دن بھی خدا لائے
کلکِ ثنا کو نور کی موجوں میں رکھ دیا
بلادِ عشق کی ہر رہگذر میں رہتے ہیں
ہوا ہے مخالف مگر طاقِ جاں میں چراغِ عقیدت جلائے ہوئے ہے
یوں تو میں بظاہر یہاں مصروفِ ثنا ہوں
لازم ہے جو ثنائے حبیبِ خدا کرے
ہجومِ غم ہے اور میں ہوں، اغثنی یا رسول اللہ ﷺ
اے تاجدارِ بزمِ رسالت، کرم کرم
یہ، ریاضؔ! میرے حضور ﷺ ہیں
88ء کی پہلی نعتیہ نظم
سلام سے پہلے
دیے پھر جلانے کو جی چاہتا ہے
نہ خلدِ بریں کے شجر ڈھونڈتے ہیں
کب سے ہیں ہم حضور ﷺ، پریشاں قدم قدم
ملتا ہے رزقِ حرفِ ثنا آپ ﷺ کے طفیل
اگر ممکن ہو قلب و جاں کو قرطاس و قلم کرنا
کیف میں ڈوبے ہوئے شام و سحر اچھے لگے
اے بختِ رسا آپ ﷺ کی سرکار میں رہنا
بفیضِ نعت قلم کا گلاب مہکے گا
تاجِ شاہی چھوڑ کر بھی کیوں نہ سلطانی کریں
کون کہتا ہے حصارِ عشق سے نکلوں گا میں
میری ردا سپردِ ہوائے سحر کریں
کروں گا عرض یہ، پوچھیں گے جب اپنے سوالی سے
لوح و قلم شریکِ ثنا خواں ہوئے تو ہیں
نارسائی کا موسمِ بے اماں
فرار
رزقِ بقا
حریمِ جاں میں فراق کا ایک موسم
کلاؤڈز آف ڈارکنس
صرف اور صرف آپ ﷺ
آج میلاد ہے مصطفےٰ ﷺ کا، آج جی بھر کے خوشیاں مناؤ
ثنائے ختمِ رسل کے ہوں شامیانے میں
چراغِ آرزو کب تک جلائیں یا رسول اللہ ﷺ
یوں ہی رواں دواں مری آنکھوں کا نم رہے
روسیہ ہو جسے مال و زر چاہیے
توصیفِ مصطفےٰ ﷺ کو بنامِ خدا کروں
روشنی بجھ گئی، چاندنی لٹ گئی المدد یا خدا، الکرم یا نبی ﷺ
ہر سخنور کو یہاں کلکِ رضاؒ دیتے ہیں
امواجِ سرمدی میں سفینہ بھی آئے گا
تشنہ لبوں کو سایۂ دیوار بھی ملے
آقا حضور ﷺ !قصرِ غم و ابتلا میں ہوں
وہ اک کھلی کتاب کے مانند ہیں ریاضؔ
ناخلف بیٹے سرِ بازارِ طائف آج بھی
یا خدا اب کے برس بھی کشورِ دل میں ریاضؔ
دیارِ کرب و بلا کا میں آبگینہ ہوں
میں اپنے لعل و جواہر شمار کرتا ہوں
گدا بھی اور ثنا گر بھی ہوں محمد ﷺ کا
میری قسمت دیکھا میرا مقدر دیکھا
اس سے غرض نہیں کہ مرا آشیاں رہے
غلامی کے ارض و سما لے کے جاؤں
اُنہی ﷺ کے لطف و کرم کے سحاب میں رہنا
چشمانِ تر میں آگ کا دریا لئے ہوئے
اُن ﷺ کا کرم محیط ہے ارضِ شعور پر
غبارِ خلدِ طیبہ جب کبھی میں اوڑھ لیتا ہوں
پھول لاتی ہے ہمیشہ آخرِ شب کی دعا